منزل عشق قسط 2
منزل عشق قسط 2
(چودہ سال بعد)
"جانے دو مجھے خدا کے لیے جانے دو کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا بولو۔۔۔"
جب سے اسے ہوش آیا تھا اس آدمی کو یہاں باندھا گیا تھا۔اسے یاد تھا تو بس اتنا کہ اس نے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا تھا اسکے بعد وہ اچانک سڑک پر بے ہوش ہو گیا اور ہوش آیا تو اس سنسان سے کمرے میں بندھا ہوا تھا۔
"کیوں لائے ہو مجھے یہاں؟"
وہ پھر سے اپنے ہاتھوں کو رسیوں سے کھینچتا چلایا۔تبھی اندھیرے سے کالے کپڑوں میں ایک ہیولا نظر آیا۔
"کک۔۔۔کون ہو تم کیوں لائے مجھے یہاں؟"
اس نے کالے کپڑوں میں ملبوس اس شخص سے پوچھا جس نے اپنا چہرہ تک ایک کالے رومال سے چھپایا ہوا تھا۔لیکن اس نے کوئی جواب دیے بغیر ایک چاقو نکالا اور اسکی نوک اسکی آنکھ کے پاس لایا۔
"نہیں۔۔۔نہیں کیوں کر رہے ہو ایسا کیوں۔۔۔؟"
جواب میں بس اس شخص نے خطرناک سبز آنکھوں سے اس آدمی کو دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وجہ تم جانتے ہو۔
"ممم۔۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا وہ۔۔۔وہ لڑکی اپنی مرضی سے میرے قریب۔۔۔۔"
تبھی کالے کپڑوں والے آدمی نے اس چاقو کو اسکے چہرے پر مار کر لمبا سا کٹ لگایا جو شائید یہ بھول چکا تھا کہ وہ ایک تیرہ سال کی بچی کے بارے میں بات کر رہا تھا جسکو اس نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا تھا۔
"مم۔۔۔۔معاف۔۔۔معاف کر دو۔۔۔"
تبھی کچھ بولے بغیر اس سبز آنکھوں والے جلاد نے چاقو اس شخص کی گردن پر رکھا ۔
"کک۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔آخر کون ہو تم؟"
سبز آنکھوں میں مزید وحشت آئی تھی۔
"سکندر ۔۔۔"
اتنا کہہ کر اس نے وہ چاقو اسکی گردن میں گاڑھ دیا اور اسے مرتا ہوا چھوڑ وہاں سے چلا گیا۔
❤️❤️❤️❤️
"شارٹ سرکٹ۔۔۔۔شارٹ سرکٹ۔۔۔۔۔"
اس وقت اس کے سامنے ایک بہت پیاری سی لڑکی بیٹھی پیار بھری باتیں کر رہی تھی جب اچانک ہی وہ اسے پیار سے شارٹ سرکٹ بلانے لگی تو معراج ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
"کک۔۔۔کیا ہے ۔۔۔بلی"
معراج نے نظر کا چشمہ آنکھوں پر لگاتے ہوئے جنت کو دیکھا جو اسکے بیڈ پر بیٹھی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا مطلب کیا ہے؟لگتا ہے تم بھول گئے لیکن میں تمہیں خوشخبری سناتی ہوں شارٹ سرکٹ آج تمہارا رزلٹ ہے ۔۔۔۔"
"ررر۔۔۔۔رزلٹ۔۔۔۔"
رزلٹ کے نام پر ہی معراج گھبرایا تھا۔اسکے چہرے کا رنگ تک اڑ چکا تھا۔
"جججی۔۔۔۔۔رررر۔۔۔۔۔رزلٹ۔۔۔۔۔"
جنت نے اسکی آنکھوں سے چشمہ اپنی آنکھوں پر لگا کر اسکی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
"یاد ہے مجھے۔۔۔۔۔تتت۔۔۔۔۔تم مت سکھاؤ۔۔۔۔کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔"
معراج نے اس سے چشمہ چھین کر واپس اپنی سبز آنکھوں پر لگایا۔
"ارے میں نہ سکھاؤں تو کون سکھائے اب تم نے تو رکارڈ قائم کرنا ہے فیل ہونے کا مجھ سے ایک سال بڑے ہو تم میں سکول سے کالج میں آئی اور معراج صاحب فسٹ ائیر میں۔۔۔۔میں فسٹ ائیر پاس کر گئی اور معراج صاحب پھر بھی فرسٹ ائیر میں اور اب میں سکینڈ ائیر میں ہوں اور تم دیکھنا تم پھر سے فیل ہو جاؤ گے۔۔۔۔۔پھر بھی بابا کا فیورٹ کون؟ معراج صاحب۔۔۔۔۔بابا زیادہ پیار کس سے کریں گے؟ معراج صاحب سے اور بات کس کی مانیں گے معرا۔۔۔۔۔"
معراج نے فوراً اپنا ہاتھ جنت کے چلتے منہ پر رکھا۔
"ممم۔۔۔۔۔میں پاس ہو جاؤں گا۔۔۔۔ددد۔۔۔۔دیکھنا تم۔۔۔۔زز۔۔۔۔زیادہ باتیں مت کرو ببب۔۔۔۔بلی"
"ددد۔۔۔۔دیکھ لوں گی ششش۔۔۔۔شارٹ سرکٹ۔۔۔"
جنت نے پھر سے اسکی نقل اتارتے ہوئے کہا اور اٹھ کر باہر بھاگ گئی۔
معراج بھی ہمت کر کے اٹھا اور فریش ہو کر خود کو شیشے میں دیکھنے لگا۔نفرت تھی اسے کمزوری سے لیکن وہ کچھ بھی کر لیتا وہ یہی تو تھا ۔۔۔۔کمزور۔
بچپن سے ہی وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا تھا اور اس کے ہکلانے کی وجہ سے ہی جنت مزاق سے اسے شارٹ سرکٹ کہتی تھی لیکن مجال تھی کہ جنت کے ہوتے ہوئے کوئی اسکے بیسٹ فرینڈ کا مزاق اڑاتا بقول جنت کے یہ حق صرف اسکا تھا۔معراج بھی تو اسکی سنہری آنکھوں کی وجہ سے اسے بلی بلاتا تھا۔
شایان نے دنیا جہان کا علاج کروایا تھا اسکا لیکن معراج کی یہ کمزوری دور نہیں ہوئی اور اب اسکی یہ کمزوری اسکے لیے احساس کمتری کا باعث بن چکی تھی۔
گہرا سانس لے کر معراج نیچے کھانے کی ٹیبل پر آیا اور اسے دیکھتے ہی شایان نے اٹھ کر اسے اپنے سینے سے لگایا معراج کا قد کاٹھ شایان جتنا ہی تھا۔
"کیسے ہو جوان؟"
شایان نے ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے معراج سے پوچھا جبکہ جانان اب لاڈ سے معراج کا ناشتہ بنا کر اسکی پلیٹ میں رکھ رہی تھی۔
"ٹھیک۔۔۔۔بڑے۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بابا۔۔۔۔"
معراج نے ہلکا سا گھبراتے ہوئے کہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس بار بھی فیل ہونے کی وجہ سے شایان کی نظروں میں گرے۔
"تم پریشان مت ہو بیٹا دیکھنا تمہارا رزلٹ بہت اچھا آئے گا مجھے پورا یقین ہے اپنے بیٹے پر۔۔۔۔"
معراج شایان کی بات ہر ہلکا سا مسکرایا۔
"کھانے کے ٹائم پر رزلٹ کی بات مت کریں شایان میرے بچے کو کھانا سکون سے کھانے دیا کریں۔"
جانان نے لاڈ معراج کا سر چومتے ہوئے کہا۔
"مما بابا مجھے بتا دیں میں آپکی ہی اولاد ہوں نا یا ترس کھا کر کہیں سے اٹھایا ہے۔۔۔۔"
جنت کے منہ پھلا کر کہنے پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیے۔
"ہاں ناں مممم۔۔۔۔۔مسجد کے باہر سے ااا۔۔۔۔اٹھایا تھا۔۔۔بلی۔۔۔۔"
آخری لفظ معراج نے بس زیر لب کہا تھا۔
"ہاں اور تمہیں تو گٹر سے اٹھایا تھا نا ش۔۔۔۔شششش۔۔۔۔۔"
شایان کو گھورتا پا کر جنت کی زبان ش پر ہی اٹک چکی تھی جبکہ ان دونوں کی اٹھکیلیاں ہی تو شایان اور جانان کا کل جہان تھیں۔
❤️❤️❤️❤️
"سالار تم ٹھیک تو ہو نا فون کیوں نہیں کیا تھا رات کو تم نے؟"
حمنہ کی پریشان سی آواز پر سالار مسکرا دیا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں مما آپ فکر مت کریں آپ بتائیں پاپا ٹھیک ہیں؟"
سالار انکی پریشانی سے بخوبی واقف تھا۔ایک مہینہ ہو گیا تھا اسے کینیڈا سے پاکستان آئے ہوئے،وہ ملک جو انکا ہوتے ہوئے ان کے لیے پرایا ہو چکا تھا۔
"وہ ٹھیک ہیں بلکل۔۔۔۔کیا تمہاری جانان اور زرش سے ملاقات ہوئی؟"
حمنہ نے آہستہ سے پوچھا اپنی بہنوں کے بارے میں پوچھا۔
"نہیں لیکن بہت جلد کروں گا آپ فکر مت کریں اور اپنا اور بابا کا بہت خیال رکھیے گا۔۔۔"
سالار نے محبت سے کہا اور پھر اللہ حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔فون بند کرتے ہی اس نے الجھن سے ارد گرد موجود گاڑیوں کو دیکھا
سالار بہت دیر سے اس ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا۔آج اسکی پہلی میٹنگ تھی اور پہلے دن ہی دیر سے پہنچنا سالار کو غصہ دلارہا تھا۔
"اور کتنا وقت لگے گا؟"
سالار نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے جمال کو دیکھتے ہوئے سختی سے پوچھا۔
"بھائی اگر یہ کار اڑتی ہو تو بس دو منٹ۔۔۔"
سالار کے گھورنے پر جمال ہلکا سا ہنس دیا جمال سالار کا گارڈ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔
"پتہ نہیں بھائی سامنے پولیس والوں نے روڈ بلاک کیا ہے شاید کسی سیاستدان کا قافلہ گزرنے والا ہے۔"
سالار نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ جن لوگوں کو یہ عوام اپنے فیصلے سے اپنا حکمران مقرر کرتی ہے وہ بعد میں کیوں انہیں ہی کمتر اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ؟
سالار نے ہاتھ میں پکڑا موبائل دیکھا تو سامنے ہی وال پیپر پر جنت کی مسکراتی ہوئی تصویر جگمگا رہی تھی جو اسے چند دن پہلے چپکے سے بنائی تھی۔ اسے دیکھ کر اتنے غصے میں بھی سالار کے ہونٹ مسکرا دیے۔ایک سکون سا اس وجود پر طاری ہونے لگا تھا۔
"جلدی سے بڑی ہو جاؤ بےبی گرل بہت انتظار کر لیا تمہارے اس دیوانے نے اب بس پوری دنیا سے چھین کر تمہیں اپنا بنانے آ چکا ہے۔۔۔۔۔"
سالار نے جنت کو دیکھتے ہوئے بہت زیادہ شدت سے کہا۔
"صاحب اور کتنی دیر لگے گی میرے بیٹے کو بہت بخار ہے۔۔۔۔"
ایک روتی ہوئی عورت کی آواز پر سالار نے موبائل بند کرکے ایک عورت کو دیکھا جو پولیس والوں کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔
"جاؤ بی بی چپ کر کے وہاں انتظار کرو دماغ نہ خراب کرو ہمارا۔۔۔"
ایک پولیس والے نے سختی سے کہا اور اس عورت کو ہلکا سا دکھا بھی دیا جبکہ یہ منظر دیکھ سالار کی بس ہوئی تھی۔
"بھائی رکیں آپ۔۔۔۔"
جمال نے کچھ کہنا چاہا لیکن سالار اسکی سنے بغیر غصے میں گاڑی سے باہر نکلا اور سیدھا پولیس والوں کے سامنے گیا۔
"آدھا گھنٹہ ہو چکا ہے ٹریفک بند کیے مسلہ کیا ہے تم لوگوں کا؟"
سالار نے ان تین پولیس والوں کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
"ایم این اے صاحب نے کراس کرنا ہے یہاں سے اور وہ کبھی بھی آنے والے ہیں آپ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر انتظار۔۔۔۔"
پولیس والے کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سالار آگے بڑا اور سامنے لگائی جانے والی رکاوٹوں کو دھکیل کر راستے سے ہٹانے لگا۔
یہ کام پورا کر سالار نے گاڑیوں کو جانے کا اشارہ کیا تو ساری ٹریفک دوبارہ سے چلنے لگی۔
تب تک ایم این اے کی گاڑیاں بھی آ چکی تھیں لیکن ان کے گزرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔
"اے شانے کون ہے تو سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔؟"
ایک پولیس والے نے آگے بڑھ کر سالار کو ہلکا سا دھکا دے کر کہا تو جواب میں سالار نے اسکا گریبان ہاتھ میں دبوچ لیا۔
"تمہیں یہ نوکری عوام کی خدمت کے لیے دی گئی ہے منسٹروں کی آؤ بھگت کے لیے نہیں۔۔۔۔"
سالار نے غصے سے اس انسپکٹر کو گھورتے ہوئے اس کے کام کا احساس دلایا۔
"کچھ زیادہ ہی اچھل رہا ہے تو جانتا بھی ہے پولیس والے پر ہاتھ ڈالنے کی سزا؟"
انسپکٹر نے سالار کے ہاتھوں سے گریبان چھڑانا چاہا لیکن سالار کی پکڑ بہت مظبوط تھی یہ دیکھ باقی پولیس والے آگے بڑھنے لگے۔
"تو ہاتھ ڈالنے کی بات کر رہا میں تو تجھ سے تیری یہ وردی چھین لوں جسکی نہ تو تجھے قدر ہے اور نہ ہی اسکا مقصد پتہ ہے ۔۔۔۔"
سالار نے جھٹکے سے اس انسپکٹر کو چھوڑا اور اپنی جیب سے اپنا کارڈ نکال کر انسپکٹر کے سامنے کیا جسے دیکھ انسپیکٹر کا رنگ اڑ چکا تھا۔
"سسسس۔۔۔۔سوری سر وہ مجھے پتہ نہیں تھا۔۔۔۔"
انسپکٹر نے فوراً سالار کو سلیوٹ کرتے ہوئے کہا تو باقی کے سپاہی بھی ویسا ہی کرنے لگے۔
"سدھر جاؤ تم لوگ یہی بہتر ہے سب کے حق میں۔۔۔"
سالار انہیں وارن کرتا وہاں سے جا چکا تھا جب کہ یہ منظر دیکھ ایم این اے نے انسپکٹر کو اپنے پاس بلایا۔
"کون تھا یہ لڑکا؟"
"سالار ملک،سیاس پارٹی کے چیر مین ہیں سر۔۔۔۔"
انسپکٹر کی بات پر ایم این کے چہرے پر حقارت کے آثار آئے۔
" اتنا کیوں اچھل رہا ہے جانتا نہیں کیا مجھے۔۔۔؟"
"فکر مت کریں جلد ہی جان جائیں گے آپ ایک دوسرے کو۔"
انسپکٹر نے مسکرا کر کہا تو ایم این اے نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔پارٹی کی میٹنگ تھی اور اسے دیر نہیں کرنی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
"میم میری اسائنمنٹ۔۔۔۔۔۔"
ہلکی سی آواز پر ردا میم نے سر اٹھا کر کانچ سی آنکھوں والی گڑیا کو دیکھا جو معصوم سا چہرہ لیے وہاں کھڑی تھی۔
"وانیا؟"
ردا میم کے پوچھنے پر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ردا میم نے مسکرا کر اس سے فائل لی اور بلکل اس کے جیسی دیکھنے والی اسکی بہن کے پاس چلی گئیں۔
"لائیں ہانیہ آپ بھی اپنی اسائنمنٹ دیں۔"
ردا میم کی بات پر اس لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر میم کو دیکھا۔
"لل۔۔۔۔لیکن میم میں نے تو اسائنمنٹ دے دی۔۔۔"
"نہیں بیٹا یہ وانیا کی اسائنمنٹ ہے آپ بھی دیں۔"
ردا میم کی بات سن کر پہلے والی لڑکی بھی آ کر اپنی بہن کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔ردا میم نے گہرا سانس لیا ان دونوں بہنوں کی پہچان کرنا بہت زیادہ مشکل کام تھا دونوں بلکل ایک جیسی دیکھائی دیتی تھیں اور جب وہ دونوں ایک جیسے کپڑے پہن لیتیں تو یہ مشکل کام ناممکن ہو جاتا۔
"میم میں نے اسائنمنٹ دے دی ہے آپ ہانیہ سے لیں۔"
ایک بہن نے منہ بنا کر کہا۔
"اچھا تو ہانیہ کون ہے دونوں میں سے؟"
دونوں نے ایک ساتھ ایک دوسری کی طرف اشارہ کیا تو پوری کلاس ہنسنے لگی۔
" میں وانیا ہوں یہ ہانیہ ہے۔۔۔"
دونوں کے ایک ساتھ بولنے پر کلاس کے ہنسنے میں مزید اضافہ ہوا جبکہ ردا میم حد سے زیادہ الجھ چکی تھیں۔
"سائیلینس کلاس۔۔۔۔۔سچ سچ بتائیں آپ سے ہانیہ کون ہے اور وانیا کون ہے؟"
ردا میم کی بات پر پھر سے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف اشارہ کیا۔
"یہ ہانیہ ہے۔۔۔"
"تو وانیا کون ہے؟"
"میں۔۔۔۔"
دونوں نے اپنی طرف اشارہ کیا تو میم ردا کا دل کیا اپنا سر پھاڑ لیں۔
" ہانیہ وانیا میں بتا رہی ہوں آئندہ تم لوگوں نے سیم ڈریسنگ کی نا تو اچھا نہیں ہو گا اور اب شرافت سے بتاؤ کہ ہانیہ کون ہے ورنہ میں پرنسپل کو شکایت لگا دوں گی۔"
پرنسپل کا نام سن کر ہی وانیا رونے لگی اور ہانیہ کو کہاں اپنی بہن کی آنکھوں میں آنسو گوارا تھے اسی لیے کھڑی ہو کر بولی۔
"میں ہانیہ ہوں میم اور یہ اسائنمنٹ وانیا کا ہے۔"
ردا میم نے غصے سے ہانیہ کو دیکھا۔
"ہانیہ پرنسپل کے آفس جائیں اسی وقت۔۔۔۔"
ردا میم کی بات پر ہانیہ منہ بناتی ہوئی پرنسپل میم کے آفس چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد ہی میم ردا بھی وہاں آئیں اور پرنسپل کو ساری بات بتا دی۔
"ہانیہ آپ کی شرارتوں سے تنگ آ چکی ہوں میں۔ایک لیفٹیننٹ کی بیٹی ہوتے ہوئے اور بچپن سے کیڈٹ سکول میں پڑھنے کے باوجود آپ اس قدر ارریسپانسبل ہیں ۔اب اتنا بھی کیا ہوا کہ ہر وقت آپ کسی نہ کسی کو پریشان کرتی رہیں اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو ایک ہفتے کے لیے یونی سے سسپینڈ کر دیا جائے۔۔۔۔"
سزا کا سن کر ہانیہ کی خوبصورت آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"ایک ہفتہ!!! اف میم کوئی اتنی چھوٹی سی شرارت کی اتنی بڑی سزا دیتا ہے؟"
ہانیہ نے خوب ڈرامائی انداز سے کہا۔
"چھوٹی سی شرارت ہانیہ بیٹا یا شرارتیں،شاید آپ بھول رہی ہیں کہ کل آپ نے اپنے میتھ کے پروفیسر کی بورڈ مارکر میں پٹاخہ لگایا تھا اور انکے وہ مارکر بورڈ پر رکھتے ہی مارکر پھٹ کر ساری انک انکے منہ پر گر گئی تھی ۔۔۔۔"
اس سین کو یاد کر کے ہانیہ نے بہت مشکل سے اپنا قہقہ روکا۔
"شاید آپ یہ بھی بھول رہی ہیں کہ چند دن پہلے آپ نے اپنے کلاس میٹ امان کو پنچ مارنا سکھاتے ہوئے اسکا ہاتھ ٹوسٹ کر کے اسکی کلائی توڑ دی۔شاید آپ یہ بھی بھول رہی ہیں کہ چوکیدار بابا کو۔۔۔۔"
"بس کریں میم میری تعریفوں کی لسٹ بہت لمبی ہے پوری سنانے بیٹھیں گی تو رات ہو جائے گی۔"
ہانیہ کے شرارت سے کہنے پر ان دونوں نے ہانیہ کو گھورا۔
"بس اب ایک ہفتے کے لیے آپ یونی نہیں آ سکتیں اور یہ مت سوچیے گا کہ آپ وانیا بن کر یہاں آ جائیں ہمیں پتہ لگ جائے گا۔"
پرنسپل میم نے ڈپٹتے ہوئے کہا تو ہانیہ نے منہ بسور لیا۔
"میم پلیز ایک آخری بار معافی ۔۔۔"
"نو ہانیہ انف از انف اب آپکو سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔یو کین گو ناؤ۔۔۔"
ہانیہ منہ بنا کر آفس سے باہر آئی تو اسکی نظر وانیا پر پڑی جو بھاگ کر اسکے پاس آئی تھی۔
"کیا ہوا ہانی؟کیا کہا پرنسپل میم نے؟"
وانیا نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"زیادہ کچھ نہیں وانی جان بس ایک ہفتے کے لیے یونی سے نکال دیا ہے۔"
سزا سن کر وانیا کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"ہانی یہ سزا تمہیں ملی ہے یا مجھے میں تمہارے بغیر کیسے آؤں گی یہاں؟"
"اپنے پیروں پر چل کر آو گی میرا بچہ میں تمہیں اٹھا کر تو نہیں لاتی۔۔۔"
وانیا کے منہ بنا کر کہنے پر ہانیہ نے اسکے گال کھینچتے ہوئے کہا۔
"مجھے تمہارے بغیر کچھ اچھا نہیں لگے گا ہانی۔۔۔"
اب کی بار تو وانیا کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھیں۔وہ دونوں بچپن سے ہی دو جسم ایک جان کی طرح رہی تھیں ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی دوست بھی نہیں آئی تھی۔
"ارے فکر ناٹ اسکا تو میں دو دن میں جگاڑ لگا لوں گی۔۔۔۔"
ہانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
" بابا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے تمہاری تو بہت زیادہ شامت آئے گی۔"
وجدان کے ذکر پر ہی ہانیہ کے چہرے سے مسکان غائب ہو چکی تھی۔
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے غصے سے ۔۔۔۔"
ہانیہ نے انتہائی بے رخی کا مظاہرہ کیا۔
"ہانی وہ بابا ہیں ہمارے ہم سے بہت پیار۔۔۔"
"ہوں پیار۔۔۔۔۔پیار صرف وہ پھپھو کے زندہ ہونے سے پہلے کرتے تھے وانی اس کے بعد نہ تو انہیں ہم دونوں سے پیار رہا نہ مما سے بس پھپھو کے ساتھ اس پیار کو بھی دفنا دیا انہوں نے۔۔۔"
ہانیہ کی بے رخی پر وانیہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔
"چلو گھر چلیں۔۔۔۔"
ہانیہ نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا اور باہر کھڑی گاڑی کی طرف چل دی جہاں تین آرمی یونیفارم میں ملبوس گارڈ انکا انتظار کر رہے تھے۔
❤️❤️❤️❤️
وہ بہت عرصے سے اس اندھیری کال کوٹھری میں بند تھا۔اسے روز ٹارچر کیا جاتا لیکن پھر بھی غرور تھا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
"آخری بار تم سے پوچھ رہا ہوں راگا تمہارے ساتھ کون کون شامل ہے۔تمہارے کس ساتھی نے کیا یہ دھماکہ بتا دو ورنہ۔۔۔"
"ورنہ کیا۔۔۔۔کیا کر لے گا تم فوجی مارے گا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔او ماڑا مار لے لیکن راگا کی زبان ایسا بند تالا ہے جسکی کوئی چابی نہیں۔۔۔۔"
راگا کی بات پر جنرل شہیر نے اپنی مٹھیاں ضبط سے کسیں۔
اتنے عرصے سے وہ خطرناک دہشتگرد انکی پکڑ میں تھا لیکن ابھی تک اس نے کسی کا نام بھی اپنی زبان پر نہیں لایا تھا انہیں کوئی چھوٹا سا سراغ بھی نہیں دیا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے ساتھی تمہیں یہ سب کر کے آزاد کروا لیں گے۔۔۔۔نہیں راگا یہ بس تمہارا خواب ہے کہ تم اس قید سے زندہ باہر نکلو گے۔۔۔"
جنرل شہیر نے اسکے کندھوں تک آتے لمبے بالوں سے چھپے چہرے پر نظریں جما کر کہا۔
"خواب کو سچ کرنا شوق ہے راگا کا فوجی ۔۔۔۔بس تم تیار رہنا کیونکہ یہ چھوٹا موٹا دھماکہ تو بس ٹریلر ہے جو راگا کے قید میں رہنے پر بڑھتا جائے گا۔۔۔۔۔"
جنرل شہیر نے آگے بڑھ کر راگا کے لمبے بال مٹھی میں جکڑے اور اسکا سر اوپر کیا۔
"اتنے معصوم لوگوں کی جان گئی تمہاری وجہ۔۔۔۔"
"تم تو بہت جلدی گھبرا گیا فوجی ابھی تو میرا ساتھی پوری فلم دیکھائے گا تب کیا بنے گا تمہارا۔۔۔۔"
راگا نے خباثت سے ہنستے ہوئے جنرل شہیر کی بات کاٹی جبکہ مغرور سیاہ نگاہوں میں پاگل پن تھا۔
"کیا کریں گے تمہارے آدمی اب۔۔۔؟"
جنرل شہیر نے آخری مرتبہ اس سے پوچھا۔۔۔
"بس دیکھتا جاؤ فوجی تم خود مجھے یہاں سے باہر ان کے پاس چھوڑ کر آئے گا یہ وعدہ ہے راگا کا۔۔۔۔"
راگا نے مسکراتے ہوئے کہا تو جنرل شہیر نے اسے جھٹکے سے چھوڑا۔
"اور ہم لوگ بھی ملک کے ہر دشمن کے وار کے لیے تیار رہیں گے۔یہ وعدہ ہے ہمارا راگا کہ اس ملک کی جانب اٹھنے والی ہر آنکھ نوچ دی جائے گی۔"
جنرل شہیر اتنا کہہ کر باہر چلے گئے۔ لیکن راگا ابھی بھی سر جھکائے مسکرا رہا تھا۔
"وقت آنے دو فوجی پتہ لگ جائے گا ہار کس کا مقدر ہے۔۔۔۔"
راگا نے خباثت سے کہا اور پھر سے ہنستے ہوئے اپنا سر جھکا گیا۔